جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں...
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سرِ شام بُجھ گئے ہیں
faiz ahmed faiz
دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری...
اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا
― عبید اللہ علیم
رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے...
نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے
― غالب
محفلِ جاناں ہو، مقتل ہو کہ میخانہ فراز...
جس جگہ جائیں بنا لیتے ہیں ہم اپنی جگہ
یہ حال ہو گیا آخر تری محبّت میں...
کہ چاہتے ہیں تجھے اور تری خبر سے گئے
― عبید اللہ علیم
سر فروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں...
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا
faiz ahmed faiz
دل سمجھتا تھا کہ شاید ہو فسُردہ تُو بھی...
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
― احمد فراز
تجربہ کرنے کا بس شوق تمھیں لے ڈوبا
ھم نے کب تم سے کہا تھا کہ ھمیں پیار کرو؟
No comments:
Post a Comment